میرا پاکستان کا سفر
قمرالحسن نجمی
شمسی بھائی اور میں اپنی ہمشیرہ محترمہ امینہ خاتون کو چھوٹی آپا کہتے ہیں. چھوٹی آپا کی شادی آج سے تقریبا چالیس سال قبل ابرار حسن کے ساتھ ہو گئی تھی۔ ابرار صاحب ہند و پاک کے بٹوارے کے بعد ہی پاکستان منتقل ہو گئے تھے چنانچہ چھوٹی آپا بھی رخصت ہو کر کراچی، پاکستان آ گئیں۔ ابرار صاحب کراچی کے نامور وکیلوں میں سے ایک ہیں۔ ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ بڑا بیٹا امریکہ میں ہے اور دوسرا بیٹا، عماد کراچی میں ہی ابرار صاحب کی کمپنی میں وکیل ہے۔ بیٹی کا نام زریں ہے۔ ان کے شوہر بھی وکیل ہیں جن کا نام مسرور علوی ہے۔ اس طرح یہ ایک وکیلوں کا خاندان ہے۔
چھوٹی آپا ان چالیس بیالیس سالوں میں سات بار انڈیا آچکی ہیں۔ ہم پانچ بھائی تھے۔ دو بھائیوں کا، رئیس بھائی اور نفیس بھائی کا، انتقال ہو چکا ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے بھائیوں نے اور میں بھی ان میں شامل ہوں کبھی یہ نہ سوچا کہ کوئی چھوٹی آپا کے گھر جائے۔ دوسرا ملک سہی مگر دوسرے ملک کے لوگ اپنے سگوں کے یہاں جاتے نہیں ہیں کیا؟
اور یہ دوسرا ملک بہت مختلف نہیں ہے۔ زمین ایک ہی ہے لوگوں کی شکل و صورت ایک جیسی ہے، کپڑے ایک جیسے، بولی ایک جیسی، صرف تار کھینچ کر بارڈر ہی تو بنا دیا گیا ہے۔
انڈیا میں مشہور کیا گیا ہے کہ ارے پاکستان میں تو بہت مار کاٹ ہو رہی ہے، قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے مگر ایسا نہیں ہے۔ ہندوستان میں بھی وہی سب کچھ ہوتا ہے جو پاکستان میں ہوتا ہے۔ پاکستان کی طرح انڈیا میں بھی ہمارے سیاست دانوں نے لاکھوں معصوموں کو مروایا مذہب کے نام پر اور کبھی کسی اور بہانے سے۔
خیر ایک عرصے کے بعد میرے ضمیر نے مجھے ملامت کی کہ دھتکار ہے تم پر کہ اس بہن کے یہاں جو کہ تم سے کم از کم دس بارہ سال بڑی ہیں، جنہوں نے تمھیں گود میں کھلایا ہے، نہیں جا سکتے ہو۔
چنانچہ میں نے سوچا کوئی جائے یا نہ جائے میں ضرور جاؤں گا اور اس طرح پاسپورٹ بنوانے کی کاروائی شروع کی گئی۔
نو اکتوبر سنہ دو ہزار دس کو بالاخر میرا پاسپورٹ ایشو ہو گیا اور کچھ دنوں بعد پاسپورٹ بذریعہ ڈاک گھر پر آگیا۔
اٹھائِس اکتوبر کو میرے بیٹے عدنان کی شادی تھی۔ سب لوگ اس شادی میں مشغول ہو گئے۔
مارچ دو ہزار گیارہ میں پاکستان جانے کے لیے ویزا اپلائی کیا۔ قابل تعریف بات یہ ہے کہ میرے پاسپورٹ سے لے کر ویزے کی کاروائی تک ہر معاملے میں میری بڑی بہو سیدہ نشا مشرف اور نشا کی امی کی محنتوں کا دخل ہے۔ میرے ساتھ نشا اور ان کی امی نے بھی ویزا اپلائی کیا تھا مگر ان کی امی کو ویزا نہیں ملا۔ نشا کو ویزہ مل گیا تھا مگر میرے بیٹے نور نے نشا کی سوا سالہ بیٹی یمنا کو دیکھتے ہوئے، بچی کی حفاظت کے نقطہ نظر سے اجازت نہیں دی کہ نشا یمنا کو ساتھ لے کر میرے ساتھ پاکستان جائیں۔
خیر چوبیس فروری کو پاکستان کا ویزا ملنے کے بعد ستائیس مارچ کے لیے بذریعہ ٹرین دہلی سے اٹاری تک میری بکنگ کرائی گئی۔ میں ستائیس مارچ کی رات گیارہ بجے پرانی دلی اسٹیشن سے ٹرین میں سوار ہوا۔ اٹاری جانے والے مسافروں کی چیکنگ پرانی دلی اسٹیشن سے شروع ہو گئی. ویزا اورپاسپورٹ گیٹ پر ہی دکھانا پڑا۔ میں نے ٹرین میں جا کر اپنا سامان رکھا اور اپنی برتھ پر بیٹھ گیا۔ ٹرین نےصبح چھ بجے مجھے اٹاری پہنچا دیا۔ اٹاری میں امیگریشن کی کاروائی ہونی تھی۔ پلیٹ فارم پر زبردست بھیڑ تھی۔ دس بجے گیٹ کھلا۔ میں نے فارم لے کر اسے بھرا اور فارم کو کائونٹر پہ دیا۔ یہ کاروائی ختم ہونے کے بعد میں کسٹم کے لیے روانہ ہوا۔ پہلے سامان کو اسکینر کی مشین سے گزارا گیا۔ اس کے بعد کسٹم کے لیے ایک اور کاؤنٹر پر گیا۔ وہاں پھر سامان کھول کر دیکھا گیا مگر شکر ہے کہ زیادہ پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ یہ کاروائی مکمل ہونے پہ میں اپنا سامان لے کر پلیٹ فارم پر بیٹھ گیا۔ پلیٹ فارم پر بہت بھیڑ تھی۔ پاکستانی بارڈر واہگہ جانے والی ٹرین کو دو بجے آنا تھا۔ ایک طویل انتظار کے بعد وہ ٹرین آئی؛ سارے مسافر اس میں سوار ہوئے۔ یہ ٹرین تقریبا ایک گھنٹے میں واہگہ بارڈر پہنچی۔ وہاں پھر چیکنگ ہوئی مگر یہاں زیادہ وقت نہیں لگا۔ یہ کاروائی مکمل ہونے پہ میں لاہور کا ٹکٹ لے کر ٹرین میں سوار ہوا اور ساڑھے سات بجے لاہور پہنچا۔ مگر اس وقت وہاں کراچی جانے کے لیے کوئی ٹرین موجود نہ تھی چنانچہ میں کراچی جانے کے لیے بس اسٹینڈ پہنچا۔ اتفاق سے وہاں کراچی جانے والی ایک بس تیار کھڑی تھی۔ میں سولہ سو روپے کا ٹکٹ خرید کر بس میں بیٹھ گیا۔ یہ بس اے سی کوچ تھی۔ بس رات بھر چلتی رہی اور صبح آٹھ بجے صادق آباد پہنچی۔ وہاں سب مسافروں کو بس سے اتار دیا گیا اور بتایا گیا کہ ہمیں وہاں سے دوسری بس میں بیٹھ کر کراچی جانا تھا۔ یہ بے وقوف بنانے والی بات تھی۔ بس کا قلی میرا سامان لے کر دوسری بس کی طرف چلا۔ وہ اتنی تیز چل رہا تھا کہ میں راستہ بھٹک گیا۔ میں نے اسے بہت ڈھونڈا مگر وہ نہیں ملا۔ میں نے سوچ لیا کہ میرے سارے کپڑے گئے مگر ایک شریف آدمی کو حال بتایا تو اس نے مشورہ دیا کہ اس بس کمپنی کا آفس آگے ہے، وہاں جا کر پوچھیے تو اس بس کا پتہ چل جائے گا جس میں آپ کو بیٹھنا ہے۔ میں نے یوں ہی کیا اور اس طرح مسئلہ حل ہو گیا۔ میں نے اللہ کا شکر بھیجا کہ سامان مل گیا۔ میں اس بس میں سوار ہوگیا۔ تقریبا ایک گھنٹے بعد بس روانہ ہوئی۔ کچھ دیر چلنے کے بعد راستے میں ایک جگہ بس کا ٹائر برسٹ ہو گیا۔ میں نے سوچا اللہ ساری پریشانیاں میرے ہی کھاتے میں ڈالے گا۔ خیر وہ ٹائر بدلا گیا اور بس تقریبا نو بجے کراچی میں نیپا نامی مقام پہ پہنچی۔ میں نے بس میں ایک مسافر کا موبائل لے کر چھوٹی آپا کو فون کیا۔ میرا فون کام نہیں کر رہا تھا کیونکہ اس میں انڈین سم تھی۔ خیر کچھ ہی دیر میں عماد، عماد کی بیوی، زریں، چھوٹی آپا اور زریں کا بیٹا فیضان، پورا قافلہ جو دو گاڑیوں میں سوار تھا ایک وی آئی پی کو لینے وہاں پہنچا۔ اور اس طرح میں ابرار بھائی کے گھر پہنچ گیا۔ چونکہ اٹاری کے بعد میں نے کوئی فون نہیں کیا تھا اس لیے چھوٹی آپا نے سب سے کہہ دیا تھا کہ نجمی کھو گئے ہیں۔ ہر طرف سے فون آنے لگے کہ آپ کے بھائی ملے؟ میں انتیس مارچ کو کراچی پہنچا تھا۔ گھر میں فریش ہو کر کھانا کھایا گیا جس میں تقریبا رات کے گیارہ بج گئے۔ ہمارے بہنوئی ابرار صاحب کافی پرلطف انسان ہیں۔ انہوں نے مذاق میں پوچھا 'ارے نجمی، سنا تھا کہ تم کھو گئے تھے'۔ کھانے سے فارغ ہو کر میں اپنے کمرے میں سونے کے چلا گیا۔
ابرار بھائی کا گھر ایک بہت بڑے کامپلیکس میں ہے۔ اس کامپلیکس میں تین ٹاور ہیں۔ ہر ایک ٹاور میں نو اپارٹمنٹ ہیں۔ ان کے اپارٹمنٹ میں چھ کمرے ہیں۔ ایک کمرہ میرے لیے ریزرو کر دیا گیا تھا۔ ہر کمرے میں اٹیچ باتھ، اے سی، ڈبل بیڈ، ڈریسنگ ٹیبل وغیرہ ہے۔ اس کامپلیکس میں زبردست سیکیورٹی ہے۔ ہر وقت مسلح گارڈ تعنیات رہتا ہے؛ کوئی بھی شخص بغیر شناخت کے اندر نہیں آ سکتا، یعنی پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا۔
صبح روز مرہ کے کاموں سے نپٹ کر میں ناشتے کی ٹیبل پر آیا۔ ناشتہ کیا۔ آج کا دن پاکستان کے لیے تاریخی تھا کیونکہ آج کرکٹ ورلڈ کپ کا سیمی فائنل انڈیا کے ساتھ تھا۔ انڈیا کے ساتھ جب بھی پاکستان کا کرکٹ میچ ہوتا ہے تو وہ صرف میچ نہیں ہوتا ہے بلکہ ایک جنگ ہوتی ہے۔
تیس مارچ کو پورا کراچی بند تھا۔ آفسوں میں بھی چھٹی کر دی گئی تھی۔ اسکول کالج سب بند تھے۔ سڑکیں سنسان تھیں۔ ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔ جگہ جگہ بڑے بڑے اسکرین لگا دیے گئے تھے، میچ دیکھنے کے لیے۔ مگر افسوس کہ پاکستان انتیس رنوں سے میچ ہار گیا۔ میں نے آدھا میچ ابرار صاحب کے گھر دیکھا، اس کے بعد شام کو میں چھوٹی آپا وغیرہ کے ساتھ عماد کے گھر چلا گیا۔ ان کا مکان بھی بہت اچھا ہے۔ سمندر کے کنارے خوبصورت مکان ہے۔ وہیں پر بقیہ میچ دیکھا۔ پاکستان کے میچ ہارنے پہ کچھ لوگوں نے فائرنگ شروع کر دی جس میں کئی لوگ زخمی ہو گئے۔ نہ جانے کیوں لوگ ذہنی طور پہ یوں انوالو ہو جاتے ہیں جب کہ یہ صرف کرکٹ میچ ہوتا ہے۔ خیر ہم لوگوں نے عماد کے یہاں پہلے ناشتہ کیا اور پھر رات کا کھانا کھایا۔ عماد کی بیوی عنبرین نے ماشاءاللہ کافی اچھا کھانا پکایا تھا۔ اس کے بعد ہم لوگوں نے آئس کریم کھائی۔ ابرار بھائی بھی شام کو عماد کے یہاں پہنچ گئے تھے۔ اس کے بعد ہم لوگ ابرار صاحب کے گھر اگئے۔
اکتیس مارچ کے دن ہم لوگ کہیں نہیں گئے۔ میں عماد سے کہہ رہا تھا کہ رپورٹنگ کرا دیں۔ [بھارتی شہریوں کو پاکستان میں، اور پاکستانی شہریوں کو بھارت میں داخلے کے بعد قریبی تھانے میں اپنی آمد کی اطلاع دینی ہوتی ہے۔] عماد اور ابرار بھائی کا کہنا تھا کہ تم ساٹھ سال کے ہو گئے ہو اس لیے تمھیں رپورٹنگ کی ضرورت نہیں ہے۔ مگر میں اپنے اطمینان کے لیے یہ کاغذی کاروائی مکمل کرنا چاہ رہا تھا کہ بعد میں کسی پریشانی میں نہ پڑوں۔ چنانچہ عماد نے نزدیک کے تھانے میں جا کر پتہ کیا۔ پتہ چلا کہ یہ کام وہاں نہیں ہوگا۔ کئی تھانوں میں دوڑ بھاگ کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ ایئرپورٹ تھانے میں رپورٹ ہوگی۔ عماد نے دو دن اس کام میں لگائے۔ عماد اچھے وکیلوں میں سے ہیں اور انہیں روز ہی کورٹ جانا ہوتا ہے۔ بیچارے نے اپنا قیمتی وقت صرف کر کے میری رپورٹنگ کروائی اور یوں یہ کام مکمل ہوا۔
اپریل دو، سنہ دو ہزار گیارہ
آج چھوٹی آپا مجھے اسرار بھائی کے گھر لے گئِیں۔ اسرار بھائی ابرار بھائی کے چھوٹے بھائی ہیں۔ وہاں کافی مزہ آیا۔
اپریل تین، سنہ دو ہزار گیارہ
آج چھوٹی آپا مجھے سی ایس ڈی سپر مارکیٹ جو ایک ملٹری مارکیٹ ہے لے گئیں۔ یہ سبزی اور پھلوں کی مارکیٹ ہے۔ اس کے بعد آغاز سپر مارکیٹ گئے۔ یہ کافی مہنگی مارکیٹ ہے۔ وہاں پر کچھ فروٹ جوس لیے۔ اس کے بعد ہم لوگ گھر آ گئے۔ نشا کے کزن طارق مجھے اپنے گھر لے گئے اور میں شام کو واپس آگیا۔ یہ بہت اچھے لوگ ہیں۔
اپریل چار، سنہ دو ہزار گیاہ
آج چھوٹی آپا مجھے گلشن اقبال لے گئیں تھیں؛ وہاں پر تین گھروں میں جانا تھا۔ چھوٹی آپا کے سسرال کی طرف کے کافی لوگ یہاں رہتے ہیں، وہ ہمارے بھی دور کے رشتہ دار ہیں جنہیں میں کم ہی جانتا ہوں۔ ان تین گھروں میں ایک گھر زریں کا بھی تھا۔ ان کے یہاں کافی وقت گزارا۔ ان کے شوہر مسرور بہت خوش اخلاق ہیں۔ دوپہر کا کھانا زریں کے یہاں کھایا اور پھر ہم لوگ شام کو لوٹ آئے۔
اپریل پانچ، سنہ دو ہزار گیارہ
آج ہم لوگ کہیں نہیں گئے۔ گھر پر ہی تھے۔ آج خبر ملی ہے کہ میری بڑی بہو نشا جمعہ کو دہلی سے بذریعہ بس لاہور آئیں گی اور لاہور سے بذریعہ ہوائی جہاز کراچی آئیں گی۔
اپریل چھ، سنہ دو ہزار گیارہ
آج بھی میں کہیں نہیں گیا تھا۔ گھر پر ہی تھا۔ شام کو اسرار بھائی اپنی بیگم نوشابہ کے ساتھ آئے تھے۔
اپریل سات، دو ہزار گیارہ
آج جمعرات کے دن میں ابرار بھائی کے ساتھ ان کے آفس گیا تھا۔ ماشاءاللہ کافی بڑا آفس ہے۔ ایک بڑے کمرے میں ابرار بھائی بیٹھتے ہیں۔ ایک کمرہ عماد کا ہے جس میں دو جونیئر وکیل بھی بیٹھتے ہیں۔ ایک کمرہ ابرار صاحب کے داماد، مسرور صاحب کا ہے؛ ایک کمرے میں لائبریری ہے۔ دفتر میں ایک چھوٹا سا کچن اور ایک ریسپشن ہے۔ یہ آفس ایک بڑی بلڈنگ میں پہلی منزل پر واقع ہے۔
آج ہی عماد مجھے اپنے گھر لے گئے تھے۔ ہم لوگ عنبرین کی دکان پر بھی گئے۔ ان کی بوتیک کی دکان ہے، اسٹائلو وارڈروب کے نام سے۔ اس میں پانچ کاریگر کام کرتے ہیں۔ ایک بریلی کا رہنے والا ہے۔ وہ مجھ سے مل کر بہت خوش ہوا۔ اس کے بعد عماد مجھے اپنے گھر لے گئے۔ ان کا گھر سمندر کے کنارے ہے اور کافی کھلا کھلا ہے۔ باہر بڑا سا لان ہے۔ چار پانچ کمروں کا بڑا گھر ہے۔ عماد کے دو بچے ہیں۔ ایک بیٹی، ایک بیٹا۔ لڑکے کا نام نبیل اور لڑکی کا نام ریم ہے۔
اس کے بعد وہ مجھے گھمانے فورم مال لے گئے۔ وہیں ایک ریسٹورنٹ ہے اس میں چائنیز کھایا، بہت اچھا کھانا تھا۔ اس کے بعد وہ مجھے کلفٹن بیچ سمندرکے کنارے لے گئے۔ بہت ہی خوبصورت سمندر کا کنارہ تھا۔ پانی کی زوردار لہریں اسٹریٹ لائٹ میں چاندی کی طرح چمک رہی تھیں۔ سمندر کے کنارے بہت سے اونٹ دوڑ رہے تھے جن پر لوگ سواری کرتے ہیں۔
اپریل آٹھ، سنہ دو ہزار گیارہ
آج ایک اچھی خبر ملی کہ نشا آج صبح چھ بجے دہلی سے بذریعہ کوچ لاہور کے لیے روانہ ہو گئیں۔ لاہور میں ان کے بڑے ماموں رہتے ہیں۔ ان کا لڑکا رضوان انہیں اور یمنا کو جو میری پیاری پوتی ہے اپنے گھر لے آئیں گے۔ رات نشا وہاں قیام کریں گی۔ دوسرے دن یعنی ہفتے کے دن بذریعہ ہوائی جہاز کراچی کے لیے روانہ ہوں گی۔ آج ہی خبر ملی کہ نشا ساتھ خیریت کے لاہور پہنچ گئیں۔
اپریل نو، سنہ دو ہزار گیارہ
آج بروز سنیچر نشا لاہور سے کراچی کے لیے روانہ ہو گئیں۔ خبر ملی کہ وہ پرواز کراچی ایئرپورٹ پر بارہ بج کر پینتالیس پر لینڈ کرے گی۔ ہم لوگ یعنی عماد، چھوٹی آپا، زریں اور میں بارہ بجے ایئرپورٹ کے لیے روانہ ہوئے اور بارہ پینتالیس پر ایئرپورٹ پہنچ گئے۔ وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ پرواز ایک بج کر بیس منٹ پہ آئے گی۔ ہم لوگ وقت گزارنے کے لیے ایئرپورٹ کے سامنے سڑک پار کر کے میکڈونل کے ایک ریسٹورنٹ میں بیٹھ گئے اور وہاں اپنی پسند کے، الگ الگ قسم کےاسکواش پیے۔ تقریبا ایک پینتالیس پر پرواز آگئی۔ اب نشا کا انتظار تھا۔ سامان حاصل کر کے باہر آنے میں کافی وقت لگتا ہے۔
اس بیچ ایک ڈرامہ دیکھنے کو ملا۔ ایک پیر صاحب کہیں باہر سے آنے والے تھے انہیں ریسیو کرنے کے لیے ان کے پندرہ بیس شاگرد لال پیلے نیلے سفید ہرے رنگ کے جھنڈے لیے ایک قطار میں کھڑے تھے۔ چونکہ نشا کو باہر نکلنے میں وقت تھا اس لیے عماد نے کہا آئیے آپ کو تماشہ دکھائیں۔ تھوڑی دیر میں پیر صاحب اگئے۔ ان کے شاگرد نعرے لگانے لگے۔ کافی دیر غور کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ اللہ اللہ کے نعرے لگا رہے ہیں۔ استغفراللہ۔ بدعت میں پاکستان ہندوستان سے اگے ہے۔ خیر وقت گزارنے کے لیے یہ اچھا شغل تھا۔
کچھ دیر میں نشا آگئیں۔ یمنا کو میں نے تیرہ دن کے بعد دیکھا۔ ہم لوگ نشا کا سامان لے کر باہر نکلے۔ عماد اپنی کار پارکنگ سے نکال کر لائے اور اسے فٹ پاتھ کے ساتھ لگا دیا۔ گاڑی میں سامان رکھنے کے بعد ہم روانہ ہوئے اور تقریبا ایک گھنٹے میں گھر پہنچ گئے۔ کھانا کھانے کے بعد ہم لوگ آرام کرنے کے لیے اپنے کمروں میں چلے گئے۔
شام کو عماد ہم لوگوں کو عنبرین کی دکان پر لے گئے۔ میں تو ان کی دکان دیکھ چکا تھا۔ خاص طور پہ نشا کو دکھانا تھا۔ اس کے عماد کے گھر گئے اور پھر عماد ہم لوگوں کو کلفٹن بیچ دکھانے لے گئے۔ سمندر کے کنارے ہم لوگ تھوڑی دیر رکے؛ اس کے بعد عماد ہم لوگوں کو پارک ٹاور لے گئے جہاں خوبصورت ماحول ہے۔ وہاں پر ایک ریسٹورنٹ میں پہلے تو گول گپے کھائے، اس کے بعد کھانا کھایا۔ پھر یمنا کو سندباد پر انجوائے کرایا اور یمنا کی فوٹو کھینچی گئی۔ اس کے بعد ہم لوگ گھر آگئے۔ عماد نے اعلان کر دیا کہ کل ہمارے یہاں لنچ ہے۔
اپریل دس، سنہ دو ہزار گیارہ
آج ہم سب لوگ عماد کے یہاں لنچ پر گئے۔ عنبرین نے دو طرح کا زبردست پیزا بنایا تھا اور شیر بھی تھی۔ انہیں بھی معلوم ہو گیا تھا کہ ماموں کو میٹھا بہت پسند ہے۔ کھانا کھا کر ہم لوگ واپس آگئے تھے۔ نشا کو عماد اور ان کی بیوی عنبرین تھوڑی دیر میں اپنی گاڑی سے لے ائے تھے کیونکہ نشا کو اپنے بھائی طارق کے گھر جانا تھا جو بہت دوری پہ ہے۔ عماد انہیں وہاں چھوڑ آئے تھے۔
اپریل گیارہ، سنہ دو ہزار گیارہ
آج ہم لوگ اسرار بھائی کے یہاں ڈنر پر گئے تھے۔ زریں اور مسرور وغیرہ بھی تھے۔ کھانا بہت اچھا تھا۔ چھ سات ڈشز تھیں۔ اس کے بعد ہم وہاں کافی دیر بیٹھے اور گرین ٹی پی گئی۔ تقریبا بارہ بجے ہم لوگ گھر واپس لوٹے۔
اپریل بارہ، سنہ دو ہزار گیارہ
آج میں کہیں نہیں گیا۔ گھر پر ہی رہا۔
اپریل تیرہ، سنہ دو ہزار گیارہ
آج چھوٹی آپا نے اپنے گھر پر شام کے وقت گیٹ ٹوگیدر پارٹی رکھی ہے۔ یہ پارٹی نشا کے اعزاز میں رکھی گئی ہے تاکہ ان کی سب سے ملاقات ہو جائے۔ میں اور عماد نشا کو لینے طارق کے گھر گئے تھے۔ کھانا کھایا، اس کے بعد چھوٹی آپا اپنے سپرویژن میں ماسیوں سے کام کروا رہی ہیں۔ ویسے تو وہ صبح ہی سے شام کی تیاری میں لگی ہیں۔ تین بجے زریں آگئیں۔ مسرور کورٹ میں ہیں۔ شام کو آئیں گے۔ چار بجے سے مہمان آنا شروع ہو گئے۔ عنبرین کئی چیزیں بنا کر لائیں۔ سب چیزیں بہت اچھی تھیں۔ زریں بھی کچھ بنا کر لائیں تھی۔ اور بھی لوگ کچھ نہ کچھ لے کر آگئے تھے۔ نام اس پارٹی کا ہائی ٹی تھا مگر چیزیں اتنی تھیں کہ یہ پورا کھانا ہو گیا۔ سب سے ملاقات ہو گئی۔ سارے گھر ہی کے لوگ تھے، باہر کا کوئی نہیں تھا۔ عدنان کی شادی کی ڈی وی ڈی بھی دیکھی گئی۔
اپریل چودہ، سنہ دو ہزار گیارہ
آج شام کو میں، چھوٹی آپا، نشا، یمنا وغیرہ اسرار بھائی کے یہاں گئے۔ وہاں کافی دیر بیٹھنے کے بعد نشا کو عماد کے گھر چھوڑ دیا کیونکہ عماد کا اصرار تھا کہ نشا ایک دن ہمارے یہاں رہیں گی۔ نشا کی طبیعت یہیں سے خراب تھی۔ گلا بیٹھا ہوا تھا۔ وہاں طبیعت اور زیادہ خراب ہو گئی تھی۔ عنبرین دوا دلا کر لائیں تھیں۔
اپریل پندرہ، سنہ دو ہزار گیارہ
آج شام کو نشا عماد کے یہاں سے آگئیں۔ مغرب کے بعد ابرار بھائی ہم لوگوں کو بندو خان کے کباب پراٹھے حلوہ کھلانے لے گئے۔ بندو خان کے کباب پراٹھے بہت مشہور ہیں۔
اپریل سولہ، سنہ دو ہزار گیارہ
ابھی بارہ بجے نشا یمنا کے ساتھ اپنے بھائی طارق کے یہاں گئی ہیں۔
اپریل سترہ، سنہ دو ہزار گیارہ
آج زریں اور مسرور ہم سب لوگوں کو ڈریم ورلڈ لے گئے جو ایک کافی بڑا ریزورٹ ہے۔ تقریبا سو ایکڑ پہ بنا ہوا ہے۔ کافی گرینری ہے۔ بچوں کے لیے بہت سے لوازمات ہیں، طرح طرح کے جھولے ہیں۔ وہاں یمنا نے بہت انجوائے کیا۔ وہاں ہم لوگ شام چھ بجے پہنچے تھے۔ عماد کی فیملی اور نشا جو عماد کے یہاں ہی تھیں ساڑھے سات بجے پہنچے۔ پہلے ہم لوگوں نے وہاں کے ریسٹورنٹ میں چائے پی۔ اس کے بعد میں اور مسرور، ابرار بھائی وغیرہ کافی دیر تک ٹہلتے رہے۔ اس کے بعد آٹھ بجے کھانا کھایا گیا۔ کھانے میں کافی چیزیں تھیں۔ بہت مزا آیا۔ ساڑھے نو بجے ہم سب لوگ وہاں سے چل دیے۔ میں اور نشا زریں کی گاڑی سے زریں کے یہاں کے لیے روانہ ہوئے کیونکہ ہم لوگوں کو ذریں کے یہاں رات رکنا تھا۔ صبح نشا اپنے ماموں کے یہاں چلی گئیں اور میں چھوٹی آپا کے یہاں آگیا۔
اپریل اٹھارہ، سنہ دو ہزار گیارہ
آج کوئی خاص پروگرام نہیں تھا۔ میں گھر پر ہی رہا۔
اپریل انیس، سنہ دو ہزار گیارہ
نشا کے ماموں کا فون آیا۔ وہ بہت ہی ملنسار آدمی ہیں۔ کئی بار خیریت پوچھ چکے ہیں۔ وہ پھر مجھے اپنے یہاں بلا رہے تھے۔ اتنی محبت سے بلا رہے تھے کہ میں انکار نہیں کر سکا۔ پھر بھی میں نے کہا کہ میں اپنی بہن سے پوچھ کر جواب دیتا ہوں۔ خیر چھوٹی آپا کو کیوں اعتراض ہوتا مگر پوچھنا میرا فرض تھا۔
شام کو ان کا پھر فون آیا کہ میں اپنے لڑکے کو آپ کو لینے صبح بارہ بجے بھیج دوں گا۔
اپریل بیس، سنہ دو ہزار گیارہ
بارڈر چینج کرانے کا بھی ایک مسئلہ تھا۔ عماد نے اپنے ٹریول ایجنٹ سے پتہ کیا کہ یہ کام کہاں سے ہوگا۔ معلوم ہوا کہ یہ کام ہوم ڈیپارٹمنٹ سے ہوگا۔ کون کون سے کاغذات لگائے جائیں گے؟ پاسپورٹ کی کاپی، ویزے کی کاپی، ٹرین ٹکٹ، ابرار بھائی اور چھوٹی آپا کے آئی ڈی، رپورٹنگ پیپر کی کاپی، وغیرہ۔
آج تقریبا بارہ بجے نشا کے ماموں زاد بھائی گاڑی سے مجھے لینے آئے۔ میں ان کے یہاں پہنچا۔ تھوڑی دیر کے بعد کھانا کھایا۔ دوپہر کے بعد نشا، ان کی ممانی، اور نشا کی تین ماموں زاد بہنیں سب مارکیٹ چلی گئیں۔ گھر میں نشا کے ماموں اور ان کے ایک دوست تھے۔ شام تک آرام کیا، پھر مغرب کی نماز کے بعد ہم لوگ نشا کے چھوٹے ماموں کے یہاں چلے گئے جو پاس ہی میں رہتے ہیں۔ نشا وغیرہ وہیں پہنچ گئیں تھیں۔
کافی دیر کے بعد ہم لوگوں نے وہاں رات کا کھانا کھایا۔ کھانے میں کافی کچھ تھا۔ ان کا مکان کافی اچھا تھا۔ ان کی چار بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ تقریبا گیارہ بجے ہم لوگ بڑے ماموں کے یہاں آگئے۔ رات کو میں وہیں سویا۔ صبح ناشتہ کرنے کے بعد ان کے بیٹے نے مجھے گاڑی سے چھوٹی آپا کے گھر پہنچا دیا۔
اپریل اکیس، سنہ دو ہزار گیارہ
عماد کے ساتھ سارے کاغذات وغیرہ لے کر ہوم ڈیپارٹمنٹ گئے۔ کئی جگہ چیکنگ ہوئی۔ اس کے بعد افسر کے سامنے پیش ہوئے۔ اس نے کہا ہمارے پاس میڈیکل بیسز پر ہی پاور ہے، اس لیے آپ ڈاکٹری سرٹیفیکیٹ لے آئیے۔ میں اچھا خاصا ان کے سامنے کھڑا تھا۔ وہ جھوٹ بول رہے تھے۔ چنانچہ ہم لوگ چپ چاپ چلے آئے۔ شام کو عماد پھر مجھے اپنے ساتھ لے گئے۔ اپنے گھر کے پاس ہی ایک ڈاکٹر سے سرٹیفیکیٹ بنوایا۔ میں عماد کے ساتھ ان کے گھر چلا گیا تھا۔ رات وہیں رکا۔
اپریل بائیس، سنہ دو ہزار گیارہ
آج عماد کے ساتھ صبح ساڑھے آٹھ بجے نکلے۔ عماد پہلے ڈسٹرکٹ کورٹ گئے وہاں ایک ڈیڑھ گھنٹے کا کام تھا۔ اسی بہانے پاکستان کا کورٹ بھی دیکھ لیا۔ اس کے بعد ہم لوگ ہوم ڈیپارٹمنٹ گئے۔ جیسا کہ سرکاری محکموں کا رویہ ہوتا ہے، افسر صاحب ندارد تھے۔ حضرت ساڑھےدس بجے ائے۔ خیر انہوں نے حکم صادر کیا کہ فلاں کمرے میں جائیے وہ فارم ٹائپ کر دیں گے پھر دستخط کے لیے یہاں آئیےگا۔ اس کام میں کافی دیر لگی، پھر دستخط کے لیے بڑے افسر کے کمرے میں آئے، اس طرح اللہ اللہ کر کے یہ کام ہو گیا۔
شام کو چھوٹی آپا عماد کے ساتھ آغا خان اسپتال چیک اپ کرانے گئیں۔ میں بھی ساتھ گیا تھا۔ کافی اچھا ہسپتال ہے۔ وہاں سے گھر آگئے۔
عماد اور ابرار بھائی کو ایک ڈنر پارٹی میں جانا تھا کسی وکیل صاحب کے آفس کا افتتاح تھا۔عماد اور ابرار بھائی وہاں چلے گئے۔ میں نے اور چھوٹی آپا نے کھانا کھایا۔ چھوٹی آپا نے تھوڑی دیر ٹی وی دیکھا۔ پھر دوا کھا کر اپنے کمرے میں سونے چلی گئیں۔ میں ٹی وی دیکھتا رہا۔ ساڑھےدس بجے ابرار بھائی ڈنر سے واپس آگئے۔ وہ ٹی وی دیکھنے لگے۔ میں اپنے کمرے میں آ کر یہ ڈائری لکھنے لگا۔ بارہ بج گئے ہیں۔ اب میں سونے جا رہا ہوں۔